Sara Liaqat is a columnist and writes for daily Nawa-i-Waqt
facebook.com/pages/paigham-e-umeed/117152404996236
=========================
امریکہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اس وقت ہمارا سب سے بڑا اتحادی اور خیر خواہ ہے ۔ نئے سال کا آ غاز امریکہ نے اپنے لوگوں کو مبارکباد اور نیک خواہشات کے پیغامات پہنچا کر کیا اور ہمیں یعنی کے پاکستانی قوم کو پہلی جنوری ۲۰۱۱ کی صبح ساڑھے سات بجے تین ڈرون حملے کر کے ۱۹ لوگوں کی ہلاکتوں کا تحفہ دے کر کیا ۔ ڈرون حملے جو کہ ایک طرف نہ صرف ہماری ملک کی غیرت اور وقار پہ بہت بڑی کاری ضرب ہیں دوسری طرف بہت سے مغربی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں ۹۰ فی صد لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں ۔ ایسے میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے �آسمان کی طرف نگاہ کر کے ان کے دل سے یہ ہی پکار نکلتی ہو گی کہ اے خدا کیا قصور تھا میرے لوگوں کا جو دہشت گردی کی جنگ کے نام پہ دہشت گردی کے ہی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنے خون سے اس دھرتی کو لہو رنگ کر گئے ۔ ان کے بے گناہ خون کا حساب کون دے گا ۔ ہم ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اتنے کمزور کیسے ہو گئے ہیں کہ جب جس کا دل چاہے دہشت گردی کے نام پہ ہمارے بے گناہ لوگوں کو مار کے چلا جائے اور ہم بے بسی یا بے حسی سے یہ تماشا دیکھتے رہیں ۔
ڈرون حملوں کا آغاز مشرف کے دور حکومت میں ۲۰۰۴ کو اس وقت ہوا جب جنرل مشرف نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر غیر مشروط طور پر اپنے نہ صرف فوجی اڈے اس کے حوالے کر دئیے بلکہ خفیہ طور پر ڈرون حملوں کی بھی اجازت دے دی ۔ اور انہی اڈوں میں سے ایک ائیر بیس ڈرون حملوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایک برطانوی اخبار دی ٹائمز ۱۸ فروری ۲۰۰۹ کو لکھتا ہے کہ ڈرون حملوں کے لئے پاکستان کا شمسی ائیر بیس استعمال کیا جاتا ہے اخبار کے مطابق وہاں کا ایک مقامی صحافی سفر خان بتاتا ہے کہ ہم ان طیاروں کو جب یہ ڈرون حملے کرنے جاتے ہیں اپنی انکھوں سے اڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور اس جانب سیکیورٹی کے انتہائی حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں اس لئے وہاں اس شمسی بیس کے نزدیک بھی کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ امریکہ کے انتہائی اہم عہدیدار اخبار دی فوکس کے مطابق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شمسی ائیر بیس ڈرون حملوں کے لئے ۲۰۰۲ سے امریکی سی آئی اے کے زیر استعمال ہے ۔ اس کے بعد پاکستان کے دفاعی امور کے وزیر احمد مختار نے بھی دسمبر ۲۰۰۹ کو شمسی ائیر بیس کے امریکہ کے زیر استعمال ہونے کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم امریکہ کے اس بیس کو استعمال کرنے کے معاوضے سے مطمئن نہیں ہیں ۔
۱۸ جون ۲۰۰۴ میں پہلی دفعہ امریکہ نے ڈرون طیارے سے ہمارے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں غیر سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ ۴ سے ۵ افراد ہلاک ہوئے ۔اور پھر یوں یہ سلسلہ چل ہی پڑا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی ۔ ۲۰۰۵ اور ۲۰۰۶ میں دو دو دفعہ ڈرون حملے ہوئے اور ۲۰۰۷ میں چار حملے کئے گئے ۔ جن میں غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ۱۰۹ لوگ مارے گئے ۔ ۲۰۰۸ میں جمہوری حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ سے ڈرون حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کیا جاتا مگر اس کے برعکس ا ن حملوں کے رکنے کی بجائے ان میں مزید شدت آگئی ۔ اور اس طرح صرف ۲۰۰۸ میں ۳۴ حملے کئے گئے جن میں مبینہ طور پر ۲۹۶ لوگ لقمۂ اجل بنے اور ۲۰۰۹ میں ۵۳ بار بار ان طیاروں کے ذریعے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اور جن میں مختلف ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پانچ سو سے لے کر ۷۰۹ تک ہلاکتیں ہوئیں ۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے سال ۲۰۱۰ پاکستان کے لئے بدترین سال تھا جس میں امریکہ نے قبائلی علاقوں میں ۱۱۸ ڈرون حملے کئے اور عام اندازے کے مطابق چھے سو سے زائد لوگ ان حملوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ ان تمام حملوں میں آج تک کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے بارے میں تو کوئی اندازہ لگا ہی نہیں سکتا ۔ سال ۲۰۱۰ کا آغاز بھی امریکہ نے ڈرون حملوں کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کیا کہ اگر ہمارے احکام نہیں مانو گے تو اپنا انجام بھی دیکھ لو ۔ کچھ غیر سرکاری اعداد جو کہ حتمی نہیں ہیں کے مطابق اب تک ۲۰۰۴ سے شروع ہونے حملوں میں ۱۳۷۰ لوگ مارے گئے ہیں لیکن مقامی ذرائع مرنے والوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتاتے ہیں ۔ حتمی اعداد ذرائع ابلاغ کی اس جگہ غیر موجودگی کے باعث آج تک پتا ہی نہیں لگ سکے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پہ ان میں سے اصل میں کتنی بے گناہ جانیں امریکہ کی کھلم کھلی جارحیت کا شکار ہو کے منوں مٹی تلے دفن ہو گئیں۔
ڈرون حملوں کی بظاہر حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار پر زور مذمت کی گئی ہے ۔ اور دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہت با ر بیانات جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں یہ ہماری ملکی وقار پر حملہ ہے ان کو کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ان حملوں کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نہ صرف مذمتی قرار داد پاس کی گئی بلکہ ان حملوں کو ملکی سا لمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر بند کرانے کا پر زور مطالبہ بھی کیا گیا ۔ مختلف دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کئی بار احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر ل جنر اطہر عباس بھی بارہا کہ چکے ہیں کہ ان حملوں سے ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے ۔ لیکن اعلی سطح پر حکومتی با اثر لوگوں کا رویہ ایسا اطمینان بخش محسوس ہوتا ہے جیسے ، جو جیسے چل رہا ہے چلنے دو سب ٹھیک ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے ۴ اکتوبر ۲۰۰۸ میں یہ دعوی کیا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان خفیہ ڈیل ہے اور امریکہ یہ حملے پاکستان کے تعاون سے کر رہا ہے ۔ وکی لیکس نے حالیہ انکشافات میں اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ڈرون حملے دراصل وزیر اعظم گیلانی کی ایما پر ہی ہو رہے ہیں جو کہ خفیہ طور پر امریکہ کو ان حملوں کو جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ وکی لیکس نے این ڈبلیو پیٹرسن کی وزیراعظم اور رحمان ملک سے ایک ملاقات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دوران ملاقات رحمان ملک نے کہا تھا کہ جب تک باجوڑ میں فوجی آپریشن مکمل نہیں ہو جاتا ہمیں ڈرون حملے روک دینے چاہیں کیونکہ اس کے خاصے منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے انہیں فوری طور پر ٹوک کے کہا کے مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہ چلتے رہنے چاہیں جب تک اپنے ٹارگٹ پورے نہ کر لیں ۔ ہم قومی اسمبلی میں مذمت کر یں گے اور پھر نظرانداز کر دیں گے ۔ وکی لیکس کے اس دعوے کی دفتر خارجہ نے بعد میں تردید بھی کی ہے ۔ میجر جنرل اطہر عباس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اوبامہ حکومت کو باآور کروا سکیں کہ وہ ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنی پالیسی کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیں کیونکہ اس کے ہمارے معاشرے پہ بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
امریکہ کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ یہ حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں اور پاکستان اور ا مریکہ کہ خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے ہو رہے ہیں جن میں ہم نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کئی القاعدہ کے اہم لیڈر مارے جاچکے ہیں ۔ ۲۵ مارچ ۲۰۱۰ کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قانونی مشیر نے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جنگ القاعدہ اور طالبان کے خلاف ہے اور بین الااقوامی قانون کے مطابق امریکہ اپنے دفاع کے لئے کہیں بھی کاروائی کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ حالانکہ ان کے کانگرس کے کئی لوگ ان حملوں کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہے ۔ یونائٹیڈ نیشن نے بھی ان حملوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں ۸۰ سے ۹۰ فی صد لوگ بے گناہ مارے جا رہے ہیں ۔ بروکنگس انسٹیٹیوشن کے ڈینیل بیمین نے ۱۴ جولائی ۲۰۰۹ کو کہا تھا کہ اگرچہ یہ کہنادینا انتہائی مشکل ہے کہ ابھی تک اصل میں ڈرون حملوں سے کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ ہر ایک مشتبہ دہشت گرد کے پیچھے دس بے گناہ شہری مارے جا تے ہیں ۔
پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہو گا جہاں انسانی زندگی سب سے ارزاں ہے ان ڈرون حملوں کے نتائج آج ہر پاکستانی بھگت رہا ہے ایک طرف وہ لوگ جو براہ راست ان کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ جب کوئی شخص ایک ہی گھر سے چار چار معصوم لوگوں کے جنازے اٹھاتا ہے اس کا پھر بس نہیں چلتا کہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دے اور ایسے لوگوں کو خود کش حملوں کے لئے آمادہ کرنا بہت آسان ہو تا ہے اور پھر ان کے نزدیک کسی انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر دوسری طرف آئے دن ہونے والے خود کش حملوں کی صورت میں ساری قوم خمیازہ اٹھاتی ہے اور تب تک اٹھاتی رہے گی جب تک ہم بے بسی اور بے حسی سے یہ سب کچھ دیکھتے اور برداشت کرتے رہیں گے ۔
دہشت گردی کی اس جنگ میں جب سے ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کیا ہے ۔ ہر عام پاکستانی کی زندگی بالکل غیر محفوظ ہو کے رہ گئی ہے ۔ اور دکھ تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے پیسے سے ہی بیس بیس سیکیورٹی گارڈ اپنی حفاظت پر مامور کر رکھے ہیں اپنے گھر تو بم پروف بنا رہے ہیں اور مرنے کے لئے ہم جیسے عام لوگوں کو چھوڑ دیا ہے جنہیں یہ نہیں پتا کہ اگر صبح گھر سے باہر نکلیں گے تو رات کو دوبارہ اپنا گھر ، اپنے پیاروں کو دیکھنا نصیب ہو گا بھی یا نہیں ۔ جانے اس پاک زمیں پہ آخر خون نا حق کب تک بہتا رہے گا اور دہشت گردی کے نام پر ابھی اور کتنی زندگیاں موت کی آغوش میں چلی جائیں گی ۔ میری گیلانی صاحب سے پر زور اپیل ہے کہ خدارا اس ملک پہ اور یہاں کے لو گوں پہ رحم کریں اور ڈرون حملوں کے خلاف اپنی پالیسی تبدیل کریں ورنہ آنے والا وقت اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
No comments:
Post a Comment