Sunday, January 30, 2011

ڈرون حملے ! ہماری بے بسی یا بے حسی !!


Sara Liaqat is a columnist and writes for daily Nawa-i-Waqt
facebook.com/pages/paigham-e-umeed/117152404996236
=========================

امریکہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اس وقت ہمارا سب سے بڑا اتحادی اور خیر خواہ ہے ۔ نئے سال کا آ غاز امریکہ نے اپنے لوگوں کو مبارکباد اور نیک خواہشات کے پیغامات پہنچا کر کیا اور ہمیں یعنی کے پاکستانی قوم کو پہلی جنوری ۲۰۱۱ کی صبح ساڑھے سات بجے تین ڈرون حملے کر کے ۱۹ لوگوں کی ہلاکتوں کا تحفہ دے کر کیا ۔ ڈرون حملے جو کہ ایک طرف نہ صرف ہماری ملک کی غیرت اور وقار پہ بہت بڑی کاری ضرب ہیں دوسری طرف بہت سے مغربی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں ۹۰ فی صد لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں ۔ ایسے میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے �آسمان کی طرف نگاہ کر کے ان کے دل سے یہ ہی پکار نکلتی ہو گی کہ اے خدا کیا قصور تھا میرے لوگوں کا جو دہشت گردی کی جنگ کے نام پہ دہشت گردی کے ہی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنے خون سے اس دھرتی کو لہو رنگ کر گئے ۔ ان کے بے گناہ خون کا حساب کون دے گا ۔ ہم ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اتنے کمزور کیسے ہو گئے ہیں کہ جب جس کا دل چاہے دہشت گردی کے نام پہ ہمارے بے گناہ لوگوں کو مار کے چلا جائے اور ہم بے بسی یا بے حسی سے یہ تماشا دیکھتے رہیں ۔ 
ڈرون حملوں کا آغاز مشرف کے دور حکومت میں ۲۰۰۴ کو اس وقت ہوا جب جنرل مشرف نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر غیر مشروط طور پر اپنے نہ صرف فوجی اڈے اس کے حوالے کر دئیے بلکہ خفیہ طور پر ڈرون حملوں کی بھی اجازت دے دی ۔ اور انہی اڈوں میں سے ایک ائیر بیس ڈرون حملوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایک برطانوی اخبار دی ٹائمز ۱۸ فروری ۲۰۰۹ کو لکھتا ہے کہ ڈرون حملوں کے لئے پاکستان کا شمسی ائیر بیس استعمال کیا جاتا ہے اخبار کے مطابق وہاں کا ایک مقامی صحافی سفر خان بتاتا ہے کہ ہم ان طیاروں کو جب یہ ڈرون حملے کرنے جاتے ہیں اپنی انکھوں سے اڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور اس جانب سیکیورٹی کے انتہائی حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں اس لئے وہاں اس شمسی بیس کے نزدیک بھی کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ امریکہ کے انتہائی اہم عہدیدار اخبار دی فوکس کے مطابق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شمسی ائیر بیس ڈرون حملوں کے لئے ۲۰۰۲ سے امریکی سی آئی اے کے زیر استعمال ہے ۔ اس کے بعد پاکستان کے دفاعی امور کے وزیر احمد مختار نے بھی دسمبر ۲۰۰۹ کو شمسی ائیر بیس کے امریکہ کے زیر استعمال ہونے کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم امریکہ کے اس بیس کو استعمال کرنے کے معاوضے سے مطمئن نہیں ہیں ۔
۱۸ جون ۲۰۰۴ میں پہلی دفعہ امریکہ نے ڈرون طیارے سے ہمارے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں غیر سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ ۴ سے ۵ افراد ہلاک ہوئے ۔اور پھر یوں یہ سلسلہ چل ہی پڑا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی ۔ ۲۰۰۵ اور ۲۰۰۶ میں دو دو دفعہ ڈرون حملے ہوئے اور ۲۰۰۷ میں چار حملے کئے گئے ۔ جن میں غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ۱۰۹ لوگ مارے گئے ۔ ۲۰۰۸ میں جمہوری حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ سے ڈرون حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کیا جاتا مگر اس کے برعکس ا ن حملوں کے رکنے کی بجائے ان میں مزید شدت آگئی ۔ اور اس طرح صرف ۲۰۰۸ میں ۳۴ حملے کئے گئے جن میں مبینہ طور پر ۲۹۶ لوگ لقمۂ اجل بنے اور ۲۰۰۹ میں ۵۳ بار بار ان طیاروں کے ذریعے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اور جن میں مختلف ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پانچ سو سے لے کر ۷۰۹ تک ہلاکتیں ہوئیں ۔ 
ڈرون حملوں کے حوالے سے سال ۲۰۱۰ پاکستان کے لئے بدترین سال تھا جس میں امریکہ نے قبائلی علاقوں میں ۱۱۸ ڈرون حملے کئے اور عام اندازے کے مطابق چھے سو سے زائد لوگ ان حملوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ ان تمام حملوں میں آج تک کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے بارے میں تو کوئی اندازہ لگا ہی نہیں سکتا ۔ سال ۲۰۱۰ کا آغاز بھی امریکہ نے ڈرون حملوں کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کیا کہ اگر ہمارے احکام نہیں مانو گے تو اپنا انجام بھی دیکھ لو ۔ کچھ غیر سرکاری اعداد جو کہ حتمی نہیں ہیں کے مطابق اب تک ۲۰۰۴ سے شروع ہونے حملوں میں ۱۳۷۰ لوگ مارے گئے ہیں لیکن مقامی ذرائع مرنے والوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتاتے ہیں ۔ حتمی اعداد ذرائع ابلاغ کی اس جگہ غیر موجودگی کے باعث آج تک پتا ہی نہیں لگ سکے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پہ ان میں سے اصل میں کتنی بے گناہ جانیں امریکہ کی کھلم کھلی جارحیت کا شکار ہو کے منوں مٹی تلے دفن ہو گئیں۔
ڈرون حملوں کی بظاہر حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار پر زور مذمت کی گئی ہے ۔ اور دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہت با ر بیانات جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں یہ ہماری ملکی وقار پر حملہ ہے ان کو کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ان حملوں کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نہ صرف مذمتی قرار داد پاس کی گئی بلکہ ان حملوں کو ملکی سا لمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر بند کرانے کا پر زور مطالبہ بھی کیا گیا ۔ مختلف دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کئی بار احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر ل جنر اطہر عباس بھی بارہا کہ چکے ہیں کہ ان حملوں سے ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے ۔ لیکن اعلی سطح پر حکومتی با اثر لوگوں کا رویہ ایسا اطمینان بخش محسوس ہوتا ہے جیسے ، جو جیسے چل رہا ہے چلنے دو سب ٹھیک ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے ۴ اکتوبر ۲۰۰۸ میں یہ دعوی کیا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان خفیہ ڈیل ہے اور امریکہ یہ حملے پاکستان کے تعاون سے کر رہا ہے ۔ وکی لیکس نے حالیہ انکشافات میں اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ڈرون حملے دراصل وزیر اعظم گیلانی کی ایما پر ہی ہو رہے ہیں جو کہ خفیہ طور پر امریکہ کو ان حملوں کو جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ وکی لیکس نے این ڈبلیو پیٹرسن کی وزیراعظم اور رحمان ملک سے ایک ملاقات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دوران ملاقات رحمان ملک نے کہا تھا کہ جب تک باجوڑ میں فوجی آپریشن مکمل نہیں ہو جاتا ہمیں ڈرون حملے روک دینے چاہیں کیونکہ اس کے خاصے منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے انہیں فوری طور پر ٹوک کے کہا کے مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہ چلتے رہنے چاہیں جب تک اپنے ٹارگٹ پورے نہ کر لیں ۔ ہم قومی اسمبلی میں مذمت کر یں گے اور پھر نظرانداز کر دیں گے ۔ وکی لیکس کے اس دعوے کی دفتر خارجہ نے بعد میں تردید بھی کی ہے ۔ میجر جنرل اطہر عباس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اوبامہ حکومت کو باآور کروا سکیں کہ وہ ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنی پالیسی کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیں کیونکہ اس کے ہمارے معاشرے پہ بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
امریکہ کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ یہ حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں اور پاکستان اور ا مریکہ کہ خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے ہو رہے ہیں جن میں ہم نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کئی القاعدہ کے اہم لیڈر مارے جاچکے ہیں ۔ ۲۵ مارچ ۲۰۱۰ کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قانونی مشیر نے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جنگ القاعدہ اور طالبان کے خلاف ہے اور بین الااقوامی قانون کے مطابق امریکہ اپنے دفاع کے لئے کہیں بھی کاروائی کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ حالانکہ ان کے کانگرس کے کئی لوگ ان حملوں کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہے ۔ یونائٹیڈ نیشن نے بھی ان حملوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں ۸۰ سے ۹۰ فی صد لوگ بے گناہ مارے جا رہے ہیں ۔ بروکنگس انسٹیٹیوشن کے ڈینیل بیمین نے ۱۴ جولائی ۲۰۰۹ کو کہا تھا کہ اگرچہ یہ کہنادینا انتہائی مشکل ہے کہ ابھی تک اصل میں ڈرون حملوں سے کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ ہر ایک مشتبہ دہشت گرد کے پیچھے دس بے گناہ شہری مارے جا تے ہیں ۔ 
پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہو گا جہاں انسانی زندگی سب سے ارزاں ہے ان ڈرون حملوں کے نتائج آج ہر پاکستانی بھگت رہا ہے ایک طرف وہ لوگ جو براہ راست ان کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ جب کوئی شخص ایک ہی گھر سے چار چار معصوم لوگوں کے جنازے اٹھاتا ہے اس کا پھر بس نہیں چلتا کہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دے اور ایسے لوگوں کو خود کش حملوں کے لئے آمادہ کرنا بہت آسان ہو تا ہے اور پھر ان کے نزدیک کسی انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر دوسری طرف آئے دن ہونے والے خود کش حملوں کی صورت میں ساری قوم خمیازہ اٹھاتی ہے اور تب تک اٹھاتی رہے گی جب تک ہم بے بسی اور بے حسی سے یہ سب کچھ دیکھتے اور برداشت کرتے رہیں گے ۔ 
دہشت گردی کی اس جنگ میں جب سے ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کیا ہے ۔ ہر عام پاکستانی کی زندگی بالکل غیر محفوظ ہو کے رہ گئی ہے ۔ اور دکھ تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے پیسے سے ہی بیس بیس سیکیورٹی گارڈ اپنی حفاظت پر مامور کر رکھے ہیں اپنے گھر تو بم پروف بنا رہے ہیں اور مرنے کے لئے ہم جیسے عام لوگوں کو چھوڑ دیا ہے جنہیں یہ نہیں پتا کہ اگر صبح گھر سے باہر نکلیں گے تو رات کو دوبارہ اپنا گھر ، اپنے پیاروں کو دیکھنا نصیب ہو گا بھی یا نہیں ۔ جانے اس پاک زمیں پہ آخر خون نا حق کب تک بہتا رہے گا اور دہشت گردی کے نام پر ابھی اور کتنی زندگیاں موت کی آغوش میں چلی جائیں گی ۔ میری گیلانی صاحب سے پر زور اپیل ہے کہ خدارا اس ملک پہ اور یہاں کے لو گوں پہ رحم کریں اور ڈرون حملوں کے خلاف اپنی پالیسی تبدیل کریں ورنہ آنے والا وقت اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Saturday, January 29, 2011

Raise your voice against Drone Attacks....!

We created the page Stop Drone Attacks on faceook on 17th December, 2010.From the same date people started Like it in a huge number. More than 102 people Liked it till today. It shows that in majority the peace lovers and all members of our community strongly condemn the US Drone Attacks in Pakistan and even any where in the world. Because it kills innocent people more then the terrorists. There are some comments that people done on the facebook page:

 Babar Hayat:

The mounting drones attacks in Pakistan's tribal areas are not only killing the innocent peoples but also fueling the hatred among the tribesmen s toward Pakistan's army and its peoples. After becoming a front line state over the US war on terror, Pakistan has become the number one victim of terrorism. The nation is at disarray over the question of why Pakistan signed a deal with Washington to fight its war on terror, since its own country has plunged into the wave of terrorism. Comparatively, Pakistan has lost way more than what it gained over its decision to back the Us war on terror. Now these drones are making the situation even more dangerous, dividing the nation along the ethnic lines. Therefore, the drone attacks must be stopped.


Sabina Shahid:
Media is as usual going on with their negative coverage.i can never understand as to why would America keep repeating those same lame words,'Pakistan needs to do more',a border has two sides.There are American and Allied forces,Nato forces and Afghan army and the rangers,how come they are not able to control the other side of the border.And maybe it is time to admit that Karzai,the GOVERNOR of Kabul is nothing but a failure,who can't even control anything outside of Kabul,so how is he going to secure his own border.Easy to blame.

you can't fight extremism with more extremism,or terror with terror.There should be an initiative for more diplomacy and peace programs.

the media is so quite over this whole thing,while the attacks continue and the people are dying,majority still believes that the extremists are being killed.

if only 2011 could be the total opposite of 2010.i think we should take Obama's nobel peace prize and give it to Bush for a year or so...would it be any different?

will this year be any different? While some will have fireworks,the others will have death.Humanity is coming to its final phase of triumph or tyranny will rule?

 if only Americans knew the truth,the media has been taken hostage...wait,what am i saying?Media is money making business just like wars.

every page or group that you have joined,post it there and let the people know.

thanx...i am doing the same,hopefully more people will join.

Susan Peterson:
the New Year is barely a day old...
I honestly wish I had an answer, Sabina. At my end of the world; I wish I could give my country a cosmic punch in the head so that they will finally wake up and see what is happening in Pakistan and Afghanistan...

Exactly Eesha; the world forgets that in the "War On Terror", real life, flesh and blood people get hurt. And it is their communities who have to try and rebuild, somehow, while being attacked. It is so frustrating!!

I don't understand why there is no anger over this!!! And we all know if the situation was reversed.

Eesa Hassan:

It is a perception and a true one at that that we all need a leader to make something successful, it is apparent from the way any organization, institution is run. Can't something be done about this issue to make it heard and opposition to it registered..majority opposes it but there is no pressure on those who allow it to stop it! The public can pressurize those involved but maybe are cowardly or just not aware. Can't there be a platform just for this??? Something real with a single purpose!


It's so sad and horrible that there is hardly any awareness about the injustice of this act much less any hue and cry over it..

These numbers are just ....numbers and what about those who are maimed for the rest of their lives..and all happening just because it was 'thought' some miscreants were there!

This is making matters worse instead of wiping it out..i don't get it why those who are involved are hell bent on continuing this , thinking it to be end of so called 'extremism'!!

Muhammad Adil:

HUH....this our national interest to stop Drone attacks in our country..n look only 22 people like this page..this is something really shame for us....it should b in thousands...



Irfanullah Waizr:

We should add more and more people to this page just to make some people realize that there (IN WAZIRISTAN) everything is going wrong and commonly in a couple of weeks there is a drone attack that is necessary......so some of the people will convey our words to much more people and at last PAKISTAN will start working to stop this DRONE attacks.....I might have told you all the correct thing???



Admin:
Drear Friends if you want to contribute as an author of this blog, you can do this, Just write us on:
stopdrone@yahoo.com

And to comment, just go below to the comment box or direct do your comments on the facebook page on:

faacebook.com/StopDrone
thanks..

Sunday, January 23, 2011

WELCOME HERE.....!


The blog is new and it is updated in the most coming time i.e. in few days it will be a famous blog for all visitors and other peace lovers.




IF YOU HAVE INTEREST to JOIN-US as the AUTHORS of this BLOG and POST YOUR ARTICLES then PLEASE just write us on the following EMAIL ADDRESS: 
 stopdrone@yahoo.com

The blog is prepared and soon will be visible completely for you. THANKS